Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

مثنیٰ کا موڈ آج بہت بہتر تھا۔ صفدر جمال کے ساتھ بھی انہوں نے خوشگوار وقت گزارا تھا۔ سارا دن انہوں نے گھر سے باہر گزارا تھا تفریحی مقامات پر  پھر رات کو ڈنر ایک اعلیٰ چائینز ریسٹورنٹ میں کیا تھا  گھر واپسی پر جب وہ بیڈ پر دراز ہوئیں تو صفدر جمال نے کہا۔

”پہلی بار آپ کو اتنا خوش اور مطمئن دیکھ کر مجھے بے حد مسرت ہو رہی ہے  آخر اس خوشی کا راز کیا ہے؟“

”راز معلوم کرنا ضروری ہے کیا؟“

”جی جناب! تاکہ وہ راز معلوم ہو جائے تو ہم آپ کو تاحیات اسی طرح ہنستا مسکراتا  زندگی سے لطف اٹھاتے دیکھتے رہیں۔
“ صفدر جمال کے لہجے میں محبت ہی محبت تھی۔

”جو راز معلوم ہو جائے  وہ راز پھر راز کہاں رہتا ہے؟“

”ہم کسی خزانے کا راز تو نہیں مانگ رہے آپ سے جناب! ہم تو وہ راز مانگ رہے ہیں جو خوشیوں کے خزانے ہماری زندگی میں بھر دے اور ہم اس طرح ہی خوش و مطمئن رہیں۔
(جاری ہے)

مثنیٰ جواباً مسکراتے ہوئے گویا ہوئی تھیں۔

”سعود نے اپنی ضد چھوڑ دی ہے  اس ہندو لڑکی سے شادی کرنے کی  آپ نہیں جانتے اس کی ضد نے مجھے کس قدر الجھا رکھا تھا۔

”آپ سے کس نے کہا… سعود نے اپنی ضد چھوڑ دی ہے؟“ یک دم ہی صفدر جمال کے مسکراتے چہرے پر سنجیدگی در آئی تھی  ان کے بدلتے لہجے میں کچھ ایسا اسرار ضرور تھا کہ مثنیٰ عجیب سی بے چینی کا شکار ہو کر اٹھ بیٹھی تھیں۔

”مجھ سے کس نے کہا… مگر وہ بار بار کالز کر رہا تھا  میلز آ رہی تھیں اس کی اور اب ایک ہفتے سے خاموشی ہے تو اس کا مطلب ہے اس کو سمجھ آئی ہے وہ ایک غیر مذہب کی لڑکی سے شادی کرکے پریشانی کے علاوہ کچھ اور حاصل نہ کر پائے گا اس لئے یہ نہ کالز کر رہا ہے اور نہ میلز!“

”مثنیٰ! میں اس منطق کو نہیں مانتا جس کے سبب مذہب کے نام پر دو دلوں کو ملنے نہیں دیا جائے۔
سعود پوجا سے محبت میں بہت آگے نکل چکا ہے۔“ مثنیٰ ناگوار انداز میں صفدر جمال سے بولی تھیں۔

”یہ بات فلاسفی کی نہیں ہے  ہماری مذہبی حدود کی ہے  ہماری شناخت کی ہے  ہم اپنی ذاتی پسند نا پسند میں سمجھوتا کر سکتے ہیں مگر مذہب کا معاملہ جہاں پر آ جاتا ہے وہاں ہم سمجھوتہ نہیں کر سکتے۔“

”اچھا… آج تک میں نے تمہیں کبھی نماز تک تو پڑھتے نہیں دیکھا۔
“ وہ طنزیہ انداز میں ان سے مخاطب ہوئے۔

”نماز اللہ کیلئے ہوتی ہے اور اس کیلئے ہی ادا کی جاتی ہے ضروری نہیں جو نماز پڑھتا نظر نہ آئے  وہ نماز ہی نہیں پڑھتا اور میں شکر کرتی ہوں اپنے رب کا  جس نے مجھے مسلمان پیدا کیا اور میری دعا ہے میرا خاتمہ بھی ایمان پر ہی ہو۔“ ان کا لہجہ عام دنوں سے مختلف اور مضبوط تھا۔

”میں مانتا ہوں  ہم مسلمان ہیں  اس پر ہمیں فخر ہے مگر…“ صفدر جمال اب متردد ہو چکے تھے۔

”مگر… مگر… کیا…؟“

”دیکھو ڈیئر! کبھی ہمیں اس جگہ پر بھی سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے جہاں کچھ ممکن نہیں ہوتا۔“ وہ ان سے نرمی سے گویا ہوئیں۔

”سعود شادی کر چکا ہے۔“

”مثنیٰ کو لگا ان کی سانسیں بند ہونے لگی ہیں، دل پر زبردست ضرب لگی تھی، وہ گہری گہری سانسوں کے درمیان گویا ہوئیں۔“

”کس کی اجازت سے یہ سب ہوا…؟“

صفدر جمال نے فوری جواب نہیں دیا پہلے ایک گلاس میں ٹھنڈا پانی لائے اور ان کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔

”ریلیکس… پلیز… پہلے پانی پی لیں۔“

”میرے دل میں جو آگ لگی ہے وہ پانی سے بجھنے والی نہیں ہے۔“ انہوں نے گلاس دور اچھال دیا  وہ اس وقت شدید غصے میں تھیں۔

”میں پوچھ رہی ہوں  اس کو اجازت کس نے دی ہے؟ ابھی وہ ہماری دی گئی پاکٹ منی پر زندگی گزار رہا ہے  شادی کی ذمہ داری وہ ہماری سپورٹ کے بغیر نہیں اٹھا سکتا  پھر یہ سب کس طرح ہوا؟“ وہ صفدر جمال کے مقابل کھڑی ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھ رہی تھیں۔

”میں نے اجازت دی ہے  میں پچھلے ہفتے امریکہ ہی گیا تھا۔“

مثنیٰ عجیب سی نظروں سے انہیں دیکھتی رہ گئی تھیں۔ ان کی نظروں میں بہت کچھ تھا  بے رنج  غصہ  ملامت…!

###

آج دوسرا دن تھا  وہ دادی جان کا سامنا کرنے سے کترا رہا تھا۔ پرسوں رات سے کل سارا دن اور رات گئے تک وہ اس کو ڈھونڈنے میں لگا رہا تھا اور ہر جگہ ڈھونڈنے کے باوجود بھی ناکامی اس کا مقدر ٹھہری تھی  گھر میں کس کو پری کی فکر تھی جو اس کیلئے تلاش کا ذریعہ بنتا اور اس کو ملال اس بات پر بھی تھا کہ اتنی بڑی بات فیاض چچا سے چھپائی گئی تھی۔

رات بھی جب وہ اس سے بات کر رہے تھے تو ان کے انداز میں ایسی کوئی بے چینی و اضطراب نہ تھا جو اس قسم کی صورتحال میں محسوس ہوتا ہے جب کہ وہ خود اس کیلئے فکر مند تھے کہ وہ صبح سے بنا بتائے غائب ہو گیا تھا اور دوسری طرف ان کو دادی جان کی اچانک بگڑنے والی طبیعت کی فکر تھی  ان کی گفتگو میں پری کا کوئی ذکر نہ تھا۔

اس نے بھی عہد کر لیا تھا کہ جب تک وہ پری کو ڈھونڈ نہیں لے گا  تب تک سکون سے بیٹھے گا نہیں۔
یہ ارادہ کرکے وہ صبح ہی تیار ہوا جب کہ ابھی گھر میں کوئی بیدار بھی نہیں ہوا تھا۔ ملازمہ کچن میں ناشتے کی تیاری کر رہی تھی  اس کو ہی بتا کر وہ وہاں سے نکل آیا تھا کہ صباحت آنٹی سے کہہ دے وہ کام سے گیا ہے۔ کل کی طرح پھر اس کی خواری شروع ہو چکی تھی۔ دو راتوں سے اس کی نیند پوری نہیں ہو رہی تھی  وہ آرام نہیں کر پا رہا تھا۔ اس کے باوجود وہ تھکن محسوس کر رہا تھا نہ بے آرامی کا احساس تھا۔
لگن تھی تو بس ایک  جستجو تھی تو صرف یہ کہ ایک بار پری کا ہاتھ پکڑ کر دادی جان کے سامنے لے جائے پھر دادی کی مرضی جو سزا دیں اس کو  اس گھٹیا اور پست حرکت کی جو اس نے کی اور جس کی خاطر دادی کی طبیعت ناساز ہوئی۔

صبح دوپہر کے دامن میں چھپ چکی تھی۔ زندگی پوری طرح رواں دواں تھی۔ سڑک  پارک  شاپنگ سٹنرز  فٹ پاتھ غرض ہر جگہ لوگوں کا ہجوم تھا  ان گنت چہرے تھے۔
سیاہ  سفید  گندمی رنگت والے ان چہروں میں ایک وہ چہرہ نہ تھا جس کی اسے تلاش تھی  جس کی کھوج میں وہ مارا مارا پھر رہا تھا۔

”اوہ…!“ اس نے ایک دم گاڑی کو بریک لگائے تھے اچانک بریک لگانے سے ٹائر کی آوازیں گونج اٹھی تھیں۔ اردگرد سے گزرتے لوگ متوجہ ہوئے تھے مگر اس کو پروا نہیں تھی کسی کی بھی۔ اس نے دوبارہ غور سے دیکھا… وہ پری ہی تھی جو خراماں خراماں وہاں سے جا رہی تھی۔
گو کہ وہ سڑک کی دوسری طرف تھی۔ اردگرد سے بے نیاز سوچوں میں گم تھی۔ مگر اسے ایک نظر دیکھ کر طغرل کے چہرے پر سخت خشونت چھا گئی تھی  اس نے تیزی سے کار کو ریورس کیا اور ہواؤں سے باتیں کرتا اس سڑک پر مڑا تھا جہاں فت پاتھ وہ چل رہی تھی اچانک کار کو قریب رکتے دیکھ کر وہ گھبرا کر رکی تھی  اسی لمحے طغرل کار سے باہر نکل آیا۔

”یہ کیا طریقہ ہے؟“ وہ تیزی سے دھڑکتے دل سے بولی۔

”مجھے طریقہ سکھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ چلو میرے ساتھ…“ طغرل کی آنکھوں سے ہی نہیں  لہجے سے بھی شعلے نکل رہے تھے۔

”کیا… کیا ہوا؟ آپ مجھ سے کس انداز میں بات کر رہے ہیں؟“ وہ ششدر رہ گئی تھی اس کے انداز اور لہجے پر۔“

”یہ مجھ سے پوچھ رہی ہو کیا ہوا؟“

”میری سمجھ میں نہیں آ رہا ہے  اس انداز میں کیوں گفتگو کر رہے ہیں آپ؟ طغرل بھائی! پلیز ہوا کیا ہے آخر…“ وہ اس کا جارحانہ انداز دیکھ کر خوف زدہ ہو گئی تھی۔

”آؤ میرے ساتھ… بتاتا ہوں کیا ہوا ہے؟“ وہ غصے میں اس کا ہاتھ پکڑ کر کھینچتا ہوا لایا اور گاڑی کے اندر دھکیل کر دروازہ بند کرکے دوسری طرف سے آکر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا تھا۔ اس کے چہرے کے ہر تاثر سے غصہ و سرد مہری جھلک رہی تھی  ہر دم ہنسنے ہنسانے شوخیاں کرنے والے طغرل کا یہ روپ بے حد خطرناک تھا۔ ظالم  سفاک  بے رحم۔ وہ خود پر قابو پاکر استفسار کرنے لگی۔

”شٹ اپ! خاموش رہو۔“ وہ کار اسٹارٹ کرتا ہوا دہاڑا۔

”آپ کون ہوتے ہیں  مجھے اس طرح لے جانے والے…؟“ اس نے بھی غصے سے کہتے ہوئے اسٹیرئنگ پکڑ لیا۔

”میں تمہارے منہ لگنا نہیں چاہتابہتر ہوگا خاموش بیٹھو۔“ اس نے ایک جھٹکے سے اس کا ہاتھ اسٹیئرنگ سے ہٹا کر کار اسٹارٹ کر دی۔ اس کے چہرے پر سخت تناؤ تھا۔

”آپ مجھ پر کس خوشی میں دھونس جما رہے ہیں؟ میرا آپ سے ایسا کوئی رشتہ نہیں ہے جس کی بناء پر آپ میرا ہاتھ پکڑیں۔

”میں تم جیسی لڑکی کے ساتھ کوئی ایسے رشتے کی خواہش بھی نہیں رکھتا  جس کی بناء پر تمہارا ہاتھ پکڑ سکوں  سمجھیں تم!“ اس کے لہجے میں اتنی نفرت تھی اور تضحیک تھی کہ لمحے بھر کو پری تذلیل کے احساس سے نگاہ نہ اٹھا پائی مگر دوسرے لمحے وہ چیخ اٹھی۔

”کار روکیں… میں نے کہا کار روکیں… ورنہ میں چلتی کار سے کود جاؤں گی۔“

”جو حرکت تم نے کی ہے اس کے بعد تو تمہیں گاڑی سے کودنا نہیں چاہئے  گاڑی کے نیچے آ کر مر جانا چاہئے۔
اس وقت مجبوری غیرت پر غالب آ گئی ہے  دادی جان کی زندگی کے صدقے میں تمہیں زندہ رکھنا پڑ رہا ہے ورنہ جو حرکت تم نے گھر سے فرار ہنے کی ہے اس پر تمہیں شوٹ کرنا چاہئے تھا۔“

”یہ… کیا کہہ رہے ہیں آپ…؟ فرار…!“

”بکواس مت کرو  میں تمہاری آواز سننا بھی پسند نہیں کرتا۔“

”طغرل بھائی پلیز…!“

”خاموش! میرا ہاتھ اٹھ جائے گا  جس پر مجھے شرمندگی بھی نہیں ہو گی۔
“ وہ اس کی بات کاٹ کر دہاڑا تھا۔

اس کی سمجھ نہیں آیا یہ کیا ماجرا ہے… طغرل کا لہجہ سخت اہانت آمیز تھا کہ وہ بے اختیار رونے لگی اور گھر آنے تک اس کا رو رو کر برا حال ہو چکا تھا مگر راستے بھر وہ کٹھور بنا رہا بالکل بے گانہ انداز تھا اس کا۔ گھر آکر اس کی طرف دیکھے بغیر گویا ہوا۔

”اپنا چہرہ درست کرکے آنا دادو کے پاس۔“ پھر کار سے نکلتے ہوئے طنزیہ انداز میں تیر مارا تھا۔
”ویسے چہرہ دکھانے کے قابل تم رہی نہیں ہو مگر پھر…“ وہ تیر پر تیر چلا کر چلا گیا۔

پری کا ذہن ماؤف ہو گیا تھا  اس کی سمجھ نہیں آ رہا تھا یہ سب کیا ہو رہا ہے…؟ وہ کب اور کہاں فرار ہوئی…؟ طغرل کس فرار کی بات کر رہا ہے…؟

وہ اس بات سے بے خبر تھی کہ اوپر کمرے کی کھڑکی سے صباحت ان کو ساتھ آتے دیکھ کر سکتے میں رہ گئی ہیں۔ ان کا یہ سکتہ زیادہ دیر قائم رہ نہ سکا تھا کہ غم و غصہ فوراً ہی ان کو حواسوں میں لے آیا تھا اور وہ دھم دھم کرتی نیچے آ کر اس کی راہ میں حائل ہو گئیں۔
کاریڈور میں ان کو سامنے دیکھ کر پری حق دق رہ گئی۔

”اچھا… یہ بات ہے؟ گھر میں ایک دوسرے سے دشمنی کے ڈرامے کئے جاتے ہیں اور باہر ہی باہر گلچھرے اڑائے جاتے ہیں۔“

یہ دوسری مصیبت اس کے سامنے تھی  وہ سخت ہراساں تھی۔

”طغرل کے ساتھ آئی ہو؟“ وہ اپنے آپ پر قابو کر چکی تھیں۔

”جی…!“

”روتی رہی ہو؟“ وہ تیز نگاہوں سے اس کا جائزہ لے رہی تھیں۔
”کچھ کہا طغرل نے…؟“

”جی…؟“ وہ بری طرح گھبرا گئی تھی۔

”کچھ تو کہا ہوگا نا  جو تم اس قدر روئی ہو کہ آنکھیں سوجھ گئی ہیں۔ تم اتنا خوا مخواہ تو نہیں رو سکتی ہو؟“

”جی نہیں  کچھ نہیں کہا  میرے سر میں درد ہے۔“

”کان کھول کر سن لو  میرے گھر میں یہ بے حیائی نہیں چلے گی  میرا بیٹیوں کا ساتھ ہے اور میں نہیں چاہتی تمہارے چلن دیکھ کر میری بیٹیوں پر کوئی انگلی اٹھائے  بہن تو تم ان کی کہلاتی ہو نا! نہ بھلے سوتیلی سہی…“ وہ اسے گھورتی ہوئی چلی گئیں۔

   2
0 Comments